بیسویں صدی عیسوی میں گلگت بلتستان کاعلاقہ انتہائی پسماندگی کا شکار تھا ۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ یہاں پر غربت کی انتہا تھی۔ یہاں کے لوگ اپنے بنیادی حقوق سے محروم تھے۔ مثلاً نہ کھانے کےلئے پیٹ بھر کے کھانا تھا ،نہ پینے کے لئے صاف پانی ،نہ پہنے کے لیے کپڑے ،نہ صحت کی سہولیات،نہ رہائش کے لیے اچھے گھر ،اور تعلیمی سہولیات سے بھی محروم ہونے کی وجہ سے لوگ لاشعوری کا شکار تھے ۔اگر ہم غزر کی بات کریں تو اس وقت وہاں کے لوگ بھی مندرجہ بالا مسائل کا شکار تھے اور زندگی بسر کرنے کے لئے مکمل طور پر زراعت پر انحصار کرتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ لوگ ترقی کی راہ میں گامزن ہوتے گئے اور باشعور ہوتے گئے،لیکن اس جدید دور میں بھی غزر کے کچھ علاقے پسماندگی کا شکار ہیں جس میں گاؤں ہاتون سر فہرست ہے۔اگر اس گاؤں کی بات کریں تو اسے رقبے کے لحاظ سے ڈسٹرکٹ غزر کا دوسرا بڑا گاؤں تسلیم کیا جاتا ہے ۔جو کہ لگ بھگ بارہ کلومیٹر لمبا اور تقریباً آٹھ ہزار سے بھی زائد آبادی پر مشتمل ہے۔ یہ وہ واحد گاؤں ہے جہاں ضلع غذر کا پہلا بوائز کالج قائم کیا گیا ہے اور قراقرم یونیورسٹی کا کیمپس بھی اسی گاؤں میں قائم ہے، جہاں پورے غزر سے کافی تعداد میں طالب علم تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ گاؤں میں تعلیمی سہولیات بھر پور ہونے کے باوجود کچی اور خستہ حال سڑکوں کی وجہ سے یہاں کے مستقل طالب علم اس سے کچھ خاص استفادہ حاصل نہیں کر رہے ہیں۔ یونیورسٹی ٹرانسپورٹ سے گاؤں ہاتون کے طلبہ و طالبات محروم ہونے کی وجہ سے پرائیوٹ ٹرانسپورٹ بہت مہنگا پڑ رہا ہے۔ سمسٹر کے حساب سے دیکھے تو باقی جگہوں سے بسوں میں آنے والے طلبہ وطلبات کی نسبت یہاں کے مقامی طالب علم تین گنا زیادہ پیسے دے کر اپنے لیےٹرانسپورٹ کا انتظام کر تے آرہے ہیں۔جب ڈرائیور حضرات سے اس بارے میں بات کی جاتی ہے تو وہ کچے راستے کا بہانہ بنا لیتے ہیں۔ اس کچی سڑک پر سفر کر نے کی کیفیت کا میں کیا زکر کروں جب گھر سے نکلو توسر جھٹک جھٹک کر دکھ جائے گا گھر لوٹو تو سر دردی لے کر آنا ہوگا کیونکہ اپنا گاؤں ہے یہاں کسی کام سے دوبارہ جانا ہوگا روز کا جھنجھٹ ہے “اک روز کا رونا ہو تو صبر آجاۓ ہر روز کے رونے کو کہاں سے جگر آجاۓ”۔اور یہ بات بھی سچ ہے کہ انہی کچی سڑکوں کی وجہ سے ایک چھ بچوں کی ماں اپنی جان کی بازی ہار گئی کیو نکہ
“بظاہر لگ رہی تھی اینٹ لیکن
سڑک پر حادثہ رکھا ہوا تھا”
سفر کرنے والوں کی کیفیت کا مزید بتاؤں توخستہ حال سڑکیں پسنجروں کو کبھی جھولا جھولاتے ہے تو کبھی انکے جسم کا رائتہ بناتے ہیں۔مسلسل سفر کر کے یہاں کے لوگ ان سڑکوں کے عادی ہوۓ ہی تھے کہ حکومت نے نئی اور پکی سڑکیں بنانے کے چکر میں انکا بھی برا حال کروادیا اور پچھلے ایک سال سے اسی حالت میں ہے۔ پتہ نہیں اس میں حکومت سستی کا مظاہرہ کررہی ہے یا پھر ٹھیکہ داروں کو قصور وار ٹھہرایا جائے۔ کیونکہ روڈ اس قدر متاثر ہے کہ بیمار افراد ہسپتال کا رخ کرنے سے گھر میں پڑے رہنا مناسب سمجھتے ہیں۔ یوں جب بارش ہوتی ہے تو سڑک پر اس قدر پانی کھڑا رہتا ہے کہ یہاں سے گزرنے والی گاڑیوں اورموٹر سائیکلوں کے ٹائر بری طرح کیچڑ میں دھنس جاتے ہے اور عام لوگوں کا چلنا بھی محال ہو جاتا ہے ،اور اگر کوئی ایمرجنسی درپیش آۓ تو بندہ بری طرح اس کچے راستے کی وجہ سے منزل مقصود تک نہیں پہنچ پاتے۔اگر دوسرا مسلہ زیر بحث لایا جائے تو اس گاؤں کے دو پل اسےگاہکوچ سے ملاتے ہےکیونکہ یہ گاؤں دریائے اشکومن اور گوپس کے درمیان واقع ہے۔ دونوں پل ” پل صراط ” کا منظر پیش کر رہی ہیں ۔غلطی سے دو گاڑیاں ایک ساتھ پل سے گزر یں تودونوں دریا کے نزر ہو جائینگے ۔ حکومت سے جب التجا کی جاتی ہے تو پل کی ٹوٹی پھوٹی لکڑیاں تبدیل کر کے غائب ہو جاتے ہیں، لیکن باوجود اسکے بھی دعا ؤ کلمات پڑھے بغیر یہاں سے گزرنا بہت مشکل ہے ۔پل کی پیچیدہ حالت کی وجہ سے دوسری جگہوں سے آنے والے یونیورسٹی اور کالج کے طلبہ وطلبات بھی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں اور کافی راستہ انہیں پیدل چل کر طے کرنا پڑ رہا ہے۔ آج سے تقریباً ڈیڑھ سال پہلے سے سننے میں آرہا ہے کہ گاؤں کے لوگوں اور طلبات کے مسلسل احتجاج کے بعد دونوں پلوں کو آر۔سی۔ سی پل بنانے کا مطالبہ منظور ہو چکا ہے لیکن افسوس سد افسوس عملی طور پر اب تک کوئی کام نہیں کیا گیا۔ آ خری مسلہ جسے میں زیر بحث لانا چاہتی ہوں وہ ہے گاؤں میں پانی کی قلت ۔
“میں نے اپنی خشک آنکھوں سے لہو چھلکا دیا
اک سمندر کہہ رہا تھا مجھ کو پانی چاہیے”
کرہ ارض کی تمام مخلوقات ونباتات کی زندگی اور نشوونما کا انحصار پانی پر ہے،لیکن آج پورا گاؤں پانی کی قلت سے پریشان ہے ۔گاؤں کے لوگوں کی کئی سالوں کی جدو جہد سے ایک عدد باسپ کی ٹینکی AKRSP کی مدد سے بنوا کر اس مسلے کو حل کرنے کی کوشیشں کی گئی چونکہ آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ اس واحد سہولت سے بھی محروم ہے۔گاؤں میں نہ آبپاشی کے لیے پانی ہے اور نہ ہی پینے کے لیے ۔بات چند لوگوں کی نہیں پورے گاؤں کی ہے ۔ زمینوں کے مالک ہونے کے باوجود لوگ اناج اور سبزیاں وغیرہ خریدنے پر مجبور ہیں کیونکہ زمینیں پانی میسر نہ ہونے کی وجہ سے بنجر پڑی ہیں۔جن گھروں تک نل کے پانی کی رسائی ہےوہاں مجبور مائیں جب انتہائی مجبور ہو کر نل کے پانی سے کیاریاں سیراب کرتی ہیں تو باری جرمانے عائد کر کے انکی پریشانیوں میں مزید اضافہ کیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ مسلسل کئ سالوں سے چلتا رہا ہے ۔ ہاں ایسا کرنا بہت غلط ہے لیکن مجھے بتائے کیا آپ کے خیال میں جرمانے عائد کرنے سے یہ گمبھیر مسلہ حل ہوجائےگا بلکل نہیں جب تک مسلے کا جڑوں سے خاتمہ نہیں کیا جاتا یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہے گا۔ مزید آپ کو بتاتی چلوں تو جب میں نے ہاتون داس کی اپنی ماؤں سے اس بارے میں گفتگو کی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ہمیں یاد نہیں آخری بار ہمارے نل میں پانی کب آیا تھا۔ اور جب بارش کے دنوں نل سے پانی گزرے تومنظر کچھ یوں ہوجاتا ہے کہ
“وہ دھوپ تھی کہ زمین جل کے راکھ ہو جاتی
برس کے اب کے بڑا کام کر گیا پانی”
جی ہاں انکی اسی مایوسی سے آپ سب نے بخوبی اندازہ لگایا ہوگا کہ پانی کی قلت کی وجہ سے یہاں کے لوگ کس قدر پریشان ہیں ۔غور فکر سے علم ہوا یہ مسلہ تب حل ہوگا جب”(بٹولی “سے پانی لانےوالی سکیم کامیاب ہوگی۔ جس سے گاؤں کو تقریباً ستر فیصد فائدہ پہنچے گا۔ لیکن سکیم پروان نہ چڑھ سکی اب اسے کرپٹیٹ ممبروں کی مہربانی سمجھو یا گاؤں کے لوگوں کی نا اتفاقی ۔ علاؤہ ازیں کافی تعداد میں دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افسران کا تعلق یہاں سے ہونے کے باوجود گاؤں مسائل کا شکار ہےیہاں کے عوام کا پرسان حال پوچھنے والا کوئی نہیں ۔ جب میں نے کچھ ڈیپارٹمنٹ کے لوگوں کی ایک میٹنگ میں شرکت کی جہاں گاؤں کے کے مسائل زیر بحث لایا گیا تو دوسرے گاؤں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے مطالبات جن میں ڈیجٹل سکل سینٹرز کاقیام ،کچرے کی گاڈی ،لنک روڑز ، ویمن مارکیٹ سنٹرز اور کرئیر سینٹرز وغیرہ شا مل تھے، کے مطالبات سن کر پہلے تو مجھے حیر ت ہوئی لوگ کہاں سے کہاں پہنچ گیےہیں اور بعد میں انتہائی افسوس ہوا کہ ہم پچھلے آٹھ سالوں سےصرف ان مخصوص مسائل کے اپر کام نہیں ہونے کی وجہ سے آگے ہی نہیں بڑھ پارہے ہیں ۔گاوں کے مسائل کے حل اور یہاں کی ترقی کے لئے میں گاؤں کے افسران جو دوسری جگہوں میں مقیم ہوکے انہیں فائدہ پہنچارہے،مودبانہ التماس کر رہی ہوں کی فرصت کے لمحات میں اپنے گاؤں کی طرف بھی نظر دوڑائیں یہاں کے لوگوں کی بھلائی اور ترقی کے لیے اپنی خدمات انجام دیں (جہاں آپ نے اپنی آدھی زندگی بسر کی ہے)۔ اور گاؤں کے ہر فرد کو اپنے حقوق سے آگاہ ہو کر انکی حفاظت کر کے گاؤں کی فلاح و بہبودی کےلیےکام کرنا ہوگا ۔گاؤں کی یوتھ کو اپنے حصے کا دیا بلخصوص جلانا ہوگا اور ہر چھوٹے بڑے مسلے کو یکجاں ہو کے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشیش کرنی ہوگی ۔جو تین اہم مسائل میں نے زیر غور لایا ہے انکو حل کرنا عوام کے بس کی بات نہیں اس لیے انتظامیہ سے بھی میری التجا ہے کہ انکے حل کے لیے جلد از جلد اقدامات اٹھاکر اپنے فرائض بخوبی انجام دیں ۔ آئیں مل کر عزم کریں کہ آج سے انتظامیہ کے شانہ بشانہ کھڑے رہ کے اتفاقی کا مظاہرہ کر تے ہوئے گاؤں کو ان مسلوں سے نجات دلائیں۔